وفورِ حبس کی حدت سے جب دماغ جلا
ہوا کو چیر کے یک دم کوئی چراغ جلا
ہمارے کمرے کی وحشت نہ راس آئی اسے
ذرا جو بیٹھا دریچے میں آ کے ، زاغ جلا
سمجھ رہا تھا کہ مخلص ہیں میرے ساتھ مگر
عدم تعاونِ اہلِ کرم سے باغ جلا
علی ولی کی مَوَدَّت سے چہرہ روشن کر
درود پڑھ کے تْو دل کے تمام داغ ’’جلا‘‘
تمہارے بعد گھڑی روک دی گئی مرے دوست
تمہارے بعد مرے وقت کا سراغ جلا
تجھے خبر ہی نہیں کج ادا و خوش اندام
ترے فراق میں اس دل کا داغ داغ جلا