انسانوں کی تو کئی قسمیں ہو سکتی ہیں مگر ہمارے خیال میں بزرگوں کی صرف دو ہی قسمیں ہوتی ہیں۔ایک وہ جو اپنی بزرگی کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں اور دوسرے وہ جو چادر دیکھ کر پاؤں پھیلاتے ہیں۔
ہماری نانی اماں یعنی گرینڈ مدر کا تعلق بزرگوں کے اول الذکر قبیلے سے تھا۔ نانی اماں کو اگر بزرگوں کے اس قبیلے کا چیف کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہو گا۔ نانی اماں نے مدرسہ تو دُور کی بات ہے ، زندگی میں کبھی کتاب بھی نہیں پڑھی تھی مگر وہ زندگی کے فلسفے کو کتابیں چاٹنے والوں سے بہتر طور پر سمجھتی تھیں۔اس پر بس نہیں بلکہ وہ زبردستی دوسروں کو اپنا فلسفہ سمجھانے کے لئے مثبت اور منفی دونوں طریقے استعمال کرنے سے گریز نہ کرتیں ۔ہم نانی کی اس ہٹلر جیسی عادت سے تنگ آ کر نانی کی بجائے انھیں گرینڈ مدر بلکہ گرانڈیل مدر کہا کرتے تھے۔ نانی کو اس لفظ سے بہت چِڑ تھی۔ ان کے خیال میں اس انگریزی نام سے ان کا اسلامی تشخص خطرے میں پڑ سکتا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ نانی خود ہمارے لئے زندگی بھر خطرے کی گھنٹی بنی رہیں
نانی کی عمر کا صحیح اندازہ لگانا قدرے مشکل ہے۔ مگر جب ہمیں نانی سے اور نانی کو ہم سے آشنائی ہوئی تو یقیناً زندگی کے گلشن سے اَسّی پھول نوچ چکی تھیں۔تمام گلشن کا قریب قریب صفایا کرنے کے باوجود نانی بہت تازہ دم تھیں۔نانی کے رعب ، دبدبہ اور گرج دار آواز سے اچھے اچھوں کا پِتّا پانی ہو جاتا۔ایسے میں اگر ہماری نحیف و نزار ٹانگیں صرف کانپنے کا فریضہ انجام دیتی تھیں تو اس پر نہ ہمیں اُس وقت حیرت تھی اور نہ ہی اب۔اپنی اس قدر صحت مند نانی کو دیکھ کر ہمیں دوسروں کی مریل قسم کی نانیاں بہت اچھی لگتیں۔ بچپن کی بہت سی خواہشات میں سے ہماری ایک خواہش یہ بھی رہی کہ کاش اللہ میاں ہمیں بھی ایک لرزتی کانپتی ہوئی نانی عطا کرتے، جس کی موتیا بھری آنکھوں پر دبیز شیشوں کی عینک ہوتی ۔ ہزار کوشش کے باوجود نانی اپنی ناک سے آگے نہ دیکھ سکتیں۔مصنوعی دانت ہوتے جو نانی نہ تو ہمیں دکھا سکتیں اور نہ ہی ان سے کھا سکتیں۔کانوں میں آلۂ سماعت ہوتا جسے ہم جب جی چاہتا غائب کر دیتے۔ ہماری بچپن کی ان بے تکی خواہشات کے باوجود نانی کی تمام سمعی اور بصری قوتیں پوری طرح بیدار تھیں جس کی وجہ سے ہم بچپن میں کبھی بھی ٹھیک سے خوابِ خرگوش کے مزے نہ لے سکے۔
اپنی اکلوتی نانی کے اس قدر صحت مند ہونے کا شکوہ اللہ میاں اور کبھی کبھی والدہ سے بھی کیاکرتے جو صرف مسکرا کر رہ جاتیں۔نانی کی قابلِ رشک صحت کی بدولت ہم بچپن میں کبھی صحت مند نہ ہو سکے۔ جس کی وجہ سے نانی ہم سے اور بھی نالاں رہتیں۔نانی شاید یہ نہیں جانتی تھیں کہ برگد کے اس تنومند درخت کی شاخوں میں سے روشنی کی کوئی کرن اس کے سائے میں اگنے والے نازک پودوں تک اگر پہنچ سکتی تو تب کوئی بات بنتی۔ویسے اس عمر میں نانی کی قابلِ رشک صحت ان کے لئے عطیۂ خداوندی تھی مگر نانی پر اللہ کے انعام واکرام کی یہ برکھا ہمیں ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔ نانی کے بیمار پڑنے کی خواہش حسرت میں بدل جاتی اور اس اٹکل پچو سی خواہش کی پاداش میں الٹا ہم بستر پکڑ لیتے۔ہمارے خیال میں نانی اور اللہ میاں کے درمیان مواصلاتی رابطہ بہت زبردست تھا۔یہ سیٹلائٹ کبھی بھی خراب نہ ہوتی۔اسی لئے تو نانی کی دعائیں تھوک کے حساب سے شرفِ قبولیت پاتیں جب کہ ہماری کوئی دعا قبول نہ ہوتی۔نانی نے اپنی صحت کی مکمل ذمہ داری اللہ میاں پر چھوڑ رکھی تھی مگر ہماری ننھی منی سی صحت کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لادے لادے پھرتیں۔محلے میں سو طرح کی کھٹی میٹھی چیزیں بیچنے والے وارد ہوتے مگر کیا مجال کہ نانی انھیں کبھی گھر کی دہلیز پر رکنے دیں۔ نانی کے خیال میں تھرڈ ریٹ قسم کی چیزیں کھا کر ہم بچپن میں ہی انھیں داغِ مفارقت دے سکتے تھے۔
نانی کی چیرہ دستیاں اگر یہیں تک رہتیں تو خیریت تھی مگر وہ تو ہماری پرائیویٹ لائف میں بھی دندناتی ہوئی آتیں اور ہر چیز تہس نہس کر کے رکھ دیتیں۔ کتنی بھی آہستگی سے باتیں کرتے ، وہ ضرور سن لیتیں۔ ہمیں پورا یقین تھا کہ یا تو نانی کے پاس جِن تھے یا پھر وہ لِپ ریڈنگ کی ماہر تھیں۔ کبھی کبھی تو وہ چہرے کے مختلف زاویوں سے ہی اندازہ لگا لیتیں کہ معاملہ گڑبڑ ہے۔
ہم گھر کے کسی بھی کونے کھدرے میں چھپ کر بیٹھ جاتے ، نانی ہمیں سرچ لائٹ سے ڈھونڈتی ہوئی حاضر ہو جاتیں۔ نانی کی اس کھوجیوں والی عادت سے ہم بہت الرجک تھے۔ کبھی کبھی تو وہ موقع ِ واردات پر رنگے ہاتھوں پکڑ کر اپنی مرضی کی ایف۔ آئی ۔ آر لکھواتیں اور کڑی سے کڑی سزا نہ صرف خود دیتیں بلکہ اماں کو بھی ورغلاتیں۔اُس زمانے میں ہماری اولین خواہش یہی تھی کہ اے کاش ہماری نانی کے ہاتھوں میں کچھ اور نہیں تو ایک عدد لاٹھی ہی ہوتی۔ جیسے ہی ان کی لاٹھی کی ٹک ٹک سنائی دیتی ، ہم خبردار ہو جاتے۔ ان حالات میں نانی کے آنے کی پیشگی اطلاع ملنا ناممکنات میں سے تھا۔اسی لئے چراغ کے جِن کی طرح ہمارے چراغ کو رگڑنے کے بغیر ہی حاضر ہو جاتیںاور ہم الہ دین کو کوستے رہ جاتے۔
نانی کے مستقل مارشل لاء دَور کے دوران ہم نے بچپن کو خیر باد کہہ کر اپنی جوانی کی چوکھٹ پر ماتھا رگڑا۔ یہ ہمیں نانی سے ہی معلوم ہوا کہ ہم خیر سے جوان ہو گئے ہیں۔ کلی سے پھول بن گئے ہیں۔ نانی کا بس نہیں چلتا تھا کہ خوش بو کو قید کر لیتیں۔اس لئے انھوں نے ہمیں ہی قفس میں ڈالنے پر اکتفا کیا ۔ اگر ہم جانتے کہ دورِ جوانی اس قدر درد ناک ہو گا تو ہم ہمیشہ بچے ہی رہتے۔
نانی کی چوکیداری بے مثل تھی۔ کیا مجال کہ چڑیا بھی پر مار جائے۔ گھر میں داخل ہونے کے لئے دو دروازے تھے۔ صدر دروازے پر ہمیشہ بڑا سا تالا منہ چڑاتا رہتا اور یہ دروازہ دن کے صرف خاص اوقات ہی میں کھلتا۔ گھر میں عام ٹریفک کے لئے صرف ڈیوڑھی کا راستہ بچتا جہاں تخت پوش پر گاؤ تکیہ لگائے نانی اپنا پھن پھیلائے بیٹھی رہتیں۔ گلی میں سے گزرنے والوں پر خاص نظر رکھتیں۔محلے میں تقریباً سبھی گھر عزیزوں رشتہ داروں کے تھے۔ جہاں کوئی نیا چوکھٹا نظر آتا ، نانی فکر مند ہو جاتیں اور اگر نووارد کوئی نوجوان ہوتا تو نانی کی تشویش دوچند ہو جاتی۔
نوجوان لڑکیوں کو ڈیوڑھی میں بیٹھنے کی سخت ممانعت تھی۔ البتہ اگر کبھی اچھے موڈ میں ہوتیں تو آواز دے کر بلاتیں اور اپنے پاس بٹھاتیں۔نانی کا یہ متضاد قسم کا رویہ ہمیں بے حد کنفیوز رکھتا۔مگر جیسے ہی ہم ڈیوڑھی میں قدم رکھتے ، نانی چق گرا دیتیں۔ان کے خیال میں بچیوں کو نظر لگنے کا اندیشہ تھا ۔ ہم نانی کی خوش فہمی کی داد دیئے بنا نہ رہتے۔ بھلا ان کی موجودگی میں نظر کی کیا مجال کہ ہمیں لگ جاتی۔ ہم نانی کی چوکیداری سے اتنے بیزار تھے کہ الٹا نظر کے گلے پڑ جاتے۔
ہماری سہیلیوں کے ساتھ نانی کا رویہ ایسے ہوتا جیسے وہ ہمارے لئے نامحرم ہوں ۔ سکول کے علاوہ سہیلیوں سے ملنا جلنا منع تھا۔ صرف مسکین قسم کی سہیلیوں کو گھر میں قدم رکھنے کی اجازت تھی لیکن اس سے پہلے نانی ان کا پورا شجرۂ نسب ازبر کر لیتیں۔پسند آتا تو راہداری دیتیں ، نہیں تو ڈیوڑھی سے ہی واپس کر دیتیں۔تیز طرار قسم کی سہیلیاں نانی کو سخت نا پسند تھیں۔ان کے خیال میں اس قسم کی لڑکیاں ایڈونچر کی تلاش میں ہوتی ہیں اور ان کی صحبت ہمارے لئے زہرِ قاتل تھی۔جن سہیلیوں کے جوان بھائی ہوتے وہ بھی ہمارے ہاں آنے سے ڈِس کوالیفائی ہو جاتیں۔نانی کے خیال میں جوان بھائیوں والی سہیلیاں سب سے زیادہ خطرناک ہوتی ہیں۔سہیلیوں کے ساتھ ساتھ نانی ٹیلی ویژن سے بھی سخت بے زار تھیں۔اُس زمانے میں ٹی وی نیا نیا آیا تھا۔اس لئے نانی صدر ایوب کے سخت خلاف تھیں کہ یہ شیطانی چرخہ ملک میں کیوں داخل ہونے دیا۔ جس کمرے میںٹی وی تھا ، نانی وہاں قدم نہ رکھتیں۔نانی اگر آج زندہ ہوتیں تو ٹی وی کی حالتِ زار دیکھ کر اپنی این جی او رجسٹر کرواتیں۔احتجاجی جلوس منظم کرتیں اور اسے انسانی حقوق کا مسئلہ بنا کر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتیں۔
ہمارے خیال میں نانی اگر ٹی وی اور ہماری سہیلیوں کے معاملے میں ہاتھ ہولا رکھتیں تو ان کے بارے میں ہماری رائے اتنے کنفیوژن کا شکار نہ ہوتی۔ لیکن ہماری باتوں سے آپ ہماری نانی کے بارے میں کوئی غلط رائے مت قائم کریں۔ جہاں نانی میں تھوڑی بہت بشری کمزوریاں تھیں ، وہیں ان میں بے شمار خوبیاں بھی تھیں۔ان میں سب سے بڑی خوبی تو یہ تھی کہ وہ کہانیاں بہت اچھی سناتیں۔نانی کی خود ساختہ کہانیاں کسی فسانۂ عجائب سے کم نہ تھیں۔ جب جی چاہتا ، کہانی کو نیا موڑ دے کر ایک نئی کہانی شروع کر دیتیں۔کہانی کا انجام معلوم کرنے کے لئے ہم نانی کے رحم و کرم پر تھے۔ اپنی اس پوزیشن کا وہ خوب فائدہ اٹھاتیں۔ جب کبھی ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جاتا تو ہم نانی سے ناراض ہو جاتے۔ ہنستے ہوئے کہتیں ، دیکھو چاند میں رہنے والی پریاں تمھیں دیکھ رہی ہیں۔اچھے بچے ناراض نہیں ہوتے۔ ہم جل کر نانی کو جواب دیتے ، چاند میںپریاں نہیں رہتیں بلکہ وہاں چڑیلیں رہتی ہیں جو ہماری سب باتوں کی رپورٹ تمھیں دیتی رہتی ہیں۔ہم چاند کو دیکھنے سے بالکل انکار کر دیتے۔ ہماری اس ہٹ دھرمی کا نانی پر کچھ نہ کچھ اثر ضرور ہوتا اور وہ منہ ہی منہ میں کچھ پڑھ کر چاند کی طرف اچھا ل دیتیں۔ گویا چڑیلوں کو بھگا رہی ہوں۔
نانی کے چند معمولات زندگی بھر قائم رہے۔مثلاً کہانی سنانا، مہمانوں کی خاطر مدارات کرنا ، صدقہ خیرات اور ڈانٹ ڈپٹ کرنا۔مہمانوں کو دیکھ کر یوں خوش ہوتیں جیسے بچے رنگ برنگے کھلونوں کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ان کی خاطر مدارات میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھتیں۔مہمانوں کی بے وقت آمد سے ہماری کہانی میں جو خلل واقع ہوتا وہ ہم سے برداشت نہ ہوتا۔ ہم شکایت کرتے تو ہنس کر کہتیں ، ’’یہ ہمارے نہیں ، اللہ کے مہمان ہیں۔‘‘ یہ بات ہماری نوخیز عقل میں نہیں سماتی تھی اور ہم منہ بسور کر کہتے ، ’’اگر اللہ میاں کے مہمان ہیں تو اللہ کے پاس جائیں ، یہاں کیا کرنے آتے ہیں؟‘‘
اللہ کے مہمانوں کا ناشتہ بڑا شان دار ہوتا۔ دیسی سویاں اور انڈوں کا حلوہ ان موقعوں پر بہت اہتمام سے تیار ہوتا۔ خالص دیسی گھی جو ہمیشہ اسٹور میں تالے میں پڑا رہتا ، اس دن قفس سے آزاد ہوتا۔ مہمانوں سے محبت کا نقطۂ عروج دیسی گھی ہی ہوتا۔ اس زمانے میں ڈالڈا گھی نیا نیا نکلا تھا۔ نانی اس کی سو سو برائیاں کرتیں۔ بناسپتی گھی کی برائیاں سن سن کر ہمیں پورا یقین ہو گیا تھا کہ اسے کھانے والے سب لولے لنگڑے ہو جائیں گے۔ ڈالڈے کا ڈبا دیکھ کر نانی جھٹ گھونگھٹ نکال لیتی جیسے کسی نامحرم کو دیکھ لیا ہو۔صدقہ خیرات دل کھول کر کرتیں۔ فقیروں کا بے چینی سے انتظار کرتیں۔ جیسے ہی کوئی فقیر گلی میں صدا لگاتا ، کسی نہ کسی کو دوڑاتیں کہ اسے پکڑو۔ فقیر اگر تیز رفتار ہوتا اور گھر کے دروازے سے آگے نکل جاتا تو نانی کا موڈ خراب ہو جاتا۔ خیرات دینے کے ساتھ ساتھ اس کی خوب خبر لیتیں کہ بھیک مانگنے نکلے ہو یا اولمپک ریس میں حصہ لینے۔فقیر ہو تو فقیر بن کر رہو۔اللہ کے نام پر سوال کرتے ہو اور جواب کا انتظار کیے بغیر ہی چل پڑتے ہو۔ ہمیں اس سے شرمندہ کراؤگے کہ اس کے نام پر کسی نے کچھ مانگا اور ہم نہ دے سکے۔
صحت مند فقیر کو دیکھ کر نانی کی تیوری پر بل پڑ جاتے۔ کہتیں ہٹا کٹا مشٹنڈا بھیک مانگتا ہے۔ کوئی کام دھندا کیوں نہیں کرتا ۔ ایسی سرزنش کرتیں کہ وہ فقیر دوبارہ گلی کا رخ نہ کرتابلکہ شہر کے دوسرے صحت مند فقیروں کو بھی خبردار کر دیتا کہ فلاں محلے میں مت جاؤ۔ وہاں احتساب ہوتا ہے۔ذرا دبو قسم کے فقیر تو چپ کر کے چلے جاتے مگر دل گردے والے نانی سے الجھ پڑتے اور کہتے ،’’اماں! اگر کچھ دینا ہے تو دو، ہماری صحت کو کیوں نظر لگاتی ہو۔‘‘ ایسے گستاخ فقیر کو نانی تھانے میں رپورٹ کرانے کی دھمکی دیتیں جس پر کبھی عمل نہ ہوا۔نانی کے اس سکندرانہ سلوک کی وجہ سے صرف مریل قسم کے فقیر ہی ہمارے محلے میں قدم رکھتے۔ ہر جمعرات کو اپنے بزرگوں کا ختم پڑھ کر بہت بے تابی سے فقیروں کا انتظار کرتیں۔اگر فقیر لیٹ ہو جاتے تو انھیں باقاعدہ ڈانٹ پڑتی ۔ سامنے بٹھا کر کھانا کھلاتیں ، پانی پلاتیں اور پھر یوں بھگا دیتیں جیسے وہ بغیر اجازت ڈیوڑھی میں گھس آئے ہوں۔نانی کے برعکس نانا بہت کم گو تھے۔ نانی کی ساری سرگرمیوں سے لاتعلق اپنی ہی دنیا میں مگن رہتے۔نانی کو ان کی خاموشی سے خدا واسطے کا بیر تھا۔جان بوجھ کر وقفے وقفے سے اس پُر سکون تالاب میں کنکریاں پھینکتی رہتیں۔ نئی نئی باتیں نکال کر نانا پرحملہ آور ہوتیں مگر نانا بھی ان کے حملوں سے بچنا خوب جانتے تھے۔
نانی کے مقابلے میں نانا بہت پڑھے لکھے تھے۔ اُردو ،عربی اور فارسی پر انھیں عبور حاصل تھا۔ہیروں کے کار و بار میں دنیا گھوم چکے تھے۔اس عمر میں زیادہ وقت موٹی موٹی کتابیں پڑھنے میں گزارتے۔ ان کتابوں کو نانی زندگی بھر سوت ہی سمجھتی رہیں۔نانی تو قبول صورت ہی تھیں مگر نانااس عمر میں بھی یونانی دیوتا لگتے ۔ اٹھی ہوئی راجپوتی ناک، کشادہ پیشانی ، ذہین آنکھیں ، سرخ و سپید رنگت۔نانا اگر خوش شکل اور پڑھے لکھے تھے تو نانی کو اپنے اونچے نمبردار گھرانے کا بڑا مان تھا۔ بات بات پر بابل کے گھر کے ست رنگے کبوتروں کا ذکر کرتیں اور آب دیدہ ہو جاتیں۔
جب کبھی نانا چپ شاہ کا روزہ توڑتے ، اس دن بہت گھن گرج کے ساتھ بارش ہوتی۔ ایک ہی کمرے میں اپنے اپنے پلنگ پر بیٹھ کر لڑتے ۔ بہت سے خاندانی حالات ہمیں ان معرکوں کے دوران ہی معلوم ہوئے۔نانی لڑتے لڑتے تھک جاتیں تو پانی پی کر لیٹ جاتیں۔ہم سمجھتے کہ سیز فائر ہو گیا مگر نانی تازہ دم ہو کر پھر گولہ باری کر دیتیں۔نانی کو سب سے بڑی شکایت یہ تھی کہ نانا نے آج تک اپنے دل کی گھنڈی نہیں کھولی تھی۔ ہم سمجھتے تھے کہ گھنڈی کوئی چھوٹی موٹی کھڑکی ہو گی جو آج تک نہیں کھل سکی۔ یہ دروازہ تو ہرگز نہ ہو سکتی تھی ، کیوں کہ اگر نانا کے دل کا دروازہ بند ہو جاتا تو نانی پر ان کے گھر کا دروازہ کیسے کھلتا؟۔ جس دن یہ گھمسان کا رن پڑتا ، ہماری کہانی گول ہو جاتی۔ اس دن ہم نانی کے کہے بغیر ہی چاند میں پریاں تلاش کرنے لگ جاتے مگر ہمیں وہاں ہشاش بشاش چڑیلوں کے سوا اور کچھ نظر نہ آتاجو ہماری کہانی گول ہونے کی خوشی میں جشن منا رہی ہوتیں۔
خالہ جو ساتھ والے گھر میں رہتی تھیں ، اس معرکہ آرائی کے دوران یو۔ این۔ او بن کر بیچ بچاؤ کی کوشش کرتیںتو نانی کی گولہ باری کی زد میں آ جاتیں۔نانی کو یو۔این۔او کی طرح خالہ کے کردار پر بھی شک رہتا۔ ان کے خیال میں وہ نانا کی طرف داری کرتی تھیں ، ایسے میں خالہ کی ثالثی کو پوری حقارت سے ٹھکرا دیتیں اور انھیں اپنے ہاں آنے سے منع کر دیتیں مگر شام ہوتے ہی خالہ کو آوازیں دینے لگ جاتیں اور نانا کی سائیڈ لینے پر انھیں برا بھلا بھی کہتی رہتیں۔ نانی کا واویلا سن کر نانا صرف مسکرا کر رہ جاتے۔
نانی ہر دوسرے تیسرے مہینے اپنے بیٹوں سے ملنے داتا کی نگری ضرور جاتیں۔ عجیب اتفاق تھا کہ یہ سرکاری دورہ اکثر لڑائی کے فوراً بعد ہی پلان ہوتا۔ سفر کی تیاری بہت زور شور سے ہوتی۔ ایک دن پہلے ہی اسٹیشن جا کر قلی بک کروا کر آتیں۔ تانگہ استعمال کرنا فضول خرچی سمجھتیں۔ خوب اہتمام سے غسل ہوتا۔ کہتیں ، سفر پر انسان کو پاک صاف ہو کر جانا چاہیے ، کیا پتا یہ زندگی کا آخری سفر ہو۔ رات کاٹنی مشکل ہو جاتی ۔ اٹھ اٹھ کر رات بھر گھڑی دیکھتی رہتیں کہ کہیں بابو ٹرین نہ نکل جائے۔ بابو ٹرین کے علاوہ کسی دوسری ٹرین کو زندگی بھر گھاس نہ ڈالی۔صبح چار بجے ہی دیسی گھی کے پراٹھے تلے جاتے۔ گھی کی مہک سے سارا گھر جاگ اٹھتا۔ ہم آنکھیں ملتے ہوئے نانی کے پاس رسوئی میں آ بیٹھتے مگر کیا مجال جو پراٹھا ہمیں دے جاتیں۔نانی کی عجیب منطق تھی۔ کہتیں ، یہ سفر کا کھانا ہے، صرف مسافر ہی کھا سکتے ہیں۔ دو گھنٹے کے سفر میں ساتھ لے جائے جانے والے پراٹھوں کی تعداد دیکھ کر لگتا کہ یہ ساری ٹرین کا ناشتہ ہے۔ جیسے ہی گاڑی اسٹیشن چھوڑتی ، پراٹھوں کی پوٹلی کھل جاتی۔ نہ صرف خود مزے لے لے کر کھاتیں بلکہ پاس بیٹھے ہوؤں کو بھی ڈانٹ ڈپٹ کر کھانے پر مجبور کرتیں۔ یہ سفر نامہ ہم اس لئے لکھ رہے ہیں کہ ہم نانی کے ایک سفر کے چشم دید گواہ ہیں۔ اس کے بعد ہم نے نانی کی ہمراہی سے توبہ کر لی۔
نانی کی پسندیدہ ہابی خاندان کے لڑکے لڑکیوں کے رشتے تلاش کرنا تھی۔آپ ہی آپ جوڑ ملاتی رہتیں۔ نانی کے طے کیے ہوئے رشتے کو رد کرنے کی کسی میں ہمت نہ تھی۔ لیکن دونوں فریقوں کی رضا مندی کے باوجود بھی اگر بیل منڈھے نہ چڑھتی تو اللہ کی مرضی کہہ کر خاموش ہو جاتیں۔ شادی بیاہ کے معاملات میں لڑکے لڑکیوں کی رضا مندی معلوم کرنا شان کے خلاف سمجھتیں۔ جہاں کسی لڑکے لڑکی کو آپس میں بات کرتے دیکھا، ان کا تخیل لوٹ پوٹ ہو جاتا اور اسے رضا مندی ہی سمجھ لیتیں۔البتہ خاندان سے باہر سے آنے والے رشتوں کو بیک جنبشِ قلم رد کر دیتیں ۔ ان کے خیال میں انسانی نسلیں اسی طرح زوال پذیر ہوئی ہیں۔ خالص خون کی اصطلاح بہت شد و مد سے استعمال کرتیں ، جو کبھی ہمارے پلے نہ پڑی۔غرضے کہ نانی کا بس نہیں چلتا تھا کہ خاندان کے سبھی لڑکے لڑکیوں کی ایک ہی دن میں اجتماعی شادی کروا کر نگرانی کی مشقت سے بچ جاتیں۔
ہم سمجھتے تھے کہ نانی کھلی کتاب تھیں۔ اندر باہر سے ایک ، مگر نانی نے ہم سے زندگی بھر ایک بات چھپائے رکھی یا شاید بتانے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ جس دن نانی کا انتقال ہوا، یہ خبر ہم پر ایٹم بم بن کر گری کہ ہماری نانی نہیں پرنانی تھیں۔یعنی گریٹ گرینڈ مدر۔
سچ پوچھئے تو ہمیں زندگی میں پہلی بار خاموش لیٹی ہوئی نانی پر ٹوٹ کر پیار آیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔