لاکھ کوشش کی مگر اقرار تک پہنچا نہیں
ایک جذبہ ہے کہ جو اظہار تک پہنچا نہیں
میں نبھانے کے لئے پوری طرح تیار ہوں
پر ابھی قصہ مرے کردار تک پہنچا نہیں
بادشاہا ! کاش سن پاتا تو اس کی التجا
اک سوالی جو ترے دربار تک پہنچا نہیں
تو نے کوشش تو بہت کی تھی مرے شاطرعدو
ہاتھ پر تیرا مری دستار تک پہنچا نہیں
بے سبب الزام دوں کیونکر اسے ہر بات کا
میں ہی شاید یار کے معیار تک پہنچا نہیں
جانتا تھا وہ مرض بھی اور اس کا توڑ بھی
پر معالج وقت پر بیمار تک پہنچا نہیں
عین ممکن تھا نکل آتا اسی میں راستہ
یہ ذکی میں ہی تھا جو دیوار تک پہنچا نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔