میں کبھی رکھنا اگر چاہوں ،مرے یار، ردیف
ہونے لگتی ہے مجھے دیکھ کے بیزار ردیف
اک غزل اپنے لئیے کہنے کی ٹھانی اک دن
ذہن میں پھرتی رہی ایک ہی بیکار ردیف
تجھ سے ہٹ کر میں کبھی شعر کا سوچوں بھی تو
قافیہ کھینچتا ہے سانس، تو تلوار ردیف
میں تمہیں روز نیا شعر سنا سکتا ہوں
مجھ میں ہر روز کوئی ہوتی ہے بیدار ردیف
عشق کی طرح غزل نے بھی ترقی نہیں کی
وصل بھی خواب رہا، اور رہی بیمار ردیف