سوزِدل ، چشمِ نم ، اور ہم
زندگانی کے غم ، اور ہم
جی رہے ہیں اسی آس پر
ان کی نظرِکرم،اور ہم
عشق میں اور کچھ بھی نہیں
ہے ستم در ستم،اور ہم
دوستی نام کی رہ گئی
جھوٹے وعدے، بھرم، اور ہم
تیری دہلیز تک آگئے
لڑکھڑاتے قدم، اور ہم
کشمکش میں ہے نبضِ حیات
گھٹ رہا ہے یہ دم، اور ہم
عمر ساری اسی میں کٹی
زیست کے پیچ و خم، اور ہم
عشق کی راہ پر گامزن
تیرے غم کم سے کم، اور ہم
ہیں عزادار کب سے امین
رقصِ شالمِ الم، اور ہم