تھی جتنی یہ خراب میں اتنا خراب تھا
دنیا سے کم نہ اس سے زیادہ خراب تھا
میں چیختا تھا مجھ کو بنایا خراب کیوں
کہتا تھا کوزہ گر مجھے گارا خراب تھا
کرنی تھی جس نے روشنی دل کے مکان میں
میرے نصیب کا وہ ستارا خراب تھا
جس روز اس نے لوٹ کے آنا تھا شہر سے
اس روز میرے گاؤں کا رستہ خراب تھا
کس کس سے جانے اس کے مراسم تھے شہر میں
جتنا حسین شخص تھا اتنا خراب تھا
تو اعتبار کر یا نہیں پر یہ سچ ہے دوست
تُو مان یا نہ مان وہ بندہ خراب تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔