قسمت سے ہے رنجش نہ ہی خالق سے گِلّہ ہے
اس بار بچھڑنے میں، مری اپنی خطا ہے
ترسیل، فقط خون کی ہوتی نہیں اس سے
دل آج بھی اک شخص کے ماتم کی جگہ ہے
دنیا میں تو صدیوں سے یہ جاری ہے روایت
جو شخص یہاں بولا ، وہی قتل ہوا ہے
مقتول کے چہرے کو ذرا غور سے دیکھو
قاتل انہیں آنکھوں میں ابھی چھپ کے کھڑا ہے
مسجد کے مشائخ نے کہا شعر سناؤ
وہ شعر جو میں نے تیری سرخی پہ لکھا ہے
مستور۔۔۔! مری ملکہ ،قسم تیری ردا کی
اک شخص تو پامالیِ پردے سے مرا ہے
حرمل نے یہ کہہ کر سبھی لشکر کو ڈرایا
اک بچہ ابھی، خیموں میں تیار پڑا ہے
دادا، میرا بابا بھی ابھی میں بھی حسینی
صد شکر وراثت میں عَلم ہم کو ملا ہے