خزانے بانٹتی پھرتی ہے وہ محبت کے
فقیر ہم بھی دھنی کس قدر ہیں قسمت کے
ملی تھی ایک حقیقت کئی فسانوں سے
کئی فسانے بنے ہیں اس اک حقیت کے
تمھارے جیسے ملے ہیں منافقین تمھیں
کہ پھل تو ملنے تھے آخر تمھاری نیت کے
وہ عشق و عاشقی ، مہر و وفا، وہ یارانے
انہیں یہ لوگ سمجھتے ہیں شغل فرصت کے
بزرگ قبروں میں قدریں بھی لے گئے ہیں زبیر
یہاں تو صرف تعلق ہیں اب ضرورت کے
۔۔۔۔۔۔۔