طیور گائیں غزل، موسمِ بہار آئے
دیارِ خانہ بدوشاں جو شہریار آئے
تمہارا ثانی و ہمسر کوئی نہیں یارم
ہمارے جیسے قلندر کئی ہزار آئے
تمہارے سوختہ جانوں کے تن بدن پر تھے
دماغ بار ، سو آشفتگاں اتار آئے
نہیں نجات کا اب کوئی راستہ کہ مرے
مقابلے پہ مرے یار ، میرے یار آئے
مری دعا پہ کہو میرے دوستو آمین
مرے لیے وہ ہزاروں کو لات مار آئے