کل شب چراغ اور ستارے گلے لگے
یعنی تمہارے خواب ہمارے گلے لگے
جس پیڑ نے کہا میں تریسٹھ برس کا ہوں
اْس کی جڑوں کو چوم کے آرے گلے لگے
دل مر گیا تو مجھ سے محبت ہوئی اْسے
بینائی چھن گئی تو نظارے گلے لگے
اْس نے نظر کا ہاتھ ہلایا یْوں دور سے
ایسا لگا کہ جیسے اشارے گلے لگے
جب رو رہے تھے بیٹھ کے کشتی کے بیچ ہم
لہروں نے چیخ ماری کنارے گلے لگے
خنجر تھا آستیں میں تمہاری چھپا ہوا
ہم جانتے ہوئے بھی تمہارے گلے لگے