راحتِ قلب و نظر، جانِ جگر رول دیا
زندگی تھا جو اُسے تُو نے عمر! رول دیا
قدر داں کب ہیں یہاں فن کے، اجڈ لوگ میاں
تو نے کس شہر میں اے دوست! ہنر رول دیا
جب وہ لوٹے گی تو تربت پہ مری چیخے گی
ہائے افسوس کہ گوہر تھا مگر رول دیا
کال کر لیتے تم آنے کی ضرورت کیا تھی
تْو نے یہ کہہ کے مِرا سارا سفر رول دیا
بھاگتا پھرتا رہا ہے تْو ستاروں کے لیے
کیسی غفلت ہے کہ یوں اپنا قمر رول دیا
منہ اندھیرے وہ گیا تھا، اُسے روکا ہوتا
ہائے اِک ہیرا، جسے وقتِ سحر رول دیا
وصل کے وقت تجھے کام کئی یاد آئے
اور یوں تُو نے محبت کا ثمر رول دیا
وہ پلٹ کر، اگر آیا تھا، لگا لیتا گلے
اک خزانے کو عمر! بارِ دِگر رول دیا