جو یہ چاہے کہ سرِ دار کوئی عورت ہو
کس طرح اس کی عزادار کوئی عورت ہو
عورتیں مرد کی خواہش میں ڈرامہ دیکھیں
ڈھلتے منظر سے نمودار کوئی عورت ہو
تار ٹوٹے ہیں لبِ صوت کے ریشوں کی طرح
اب خدایا سخن آثار کوئی عورت ہو
زخم امید کے ٹانکوں سے رفو ہو جائیں
اور پسِ پردہِ دیوار کوئی عورت ہو
ایک لشکر کے سبھی جنگ زدہ مرجائیں
اور پھر قافلہ سالار کوئی عورت ہو
روشنی میں نظر آتی ہے ذرا سی چھاؤں
کیا خبر وہم کے اس پار کوئی عورت ہو
عشق کے ہاتھ نہ پیلے ہوں رقیبوں کے سبب
ہو بھلے باعث آزار کوئی عورت ہو
جس طرح ہم نے سبھی کے لیے بانہیں کھولیں
اتنی آسانی سے ہموار کوئی عورت ہو
میں کسی بات سے پیچھے نہ ہٹوں گا عاجز
گر مری جراتِ اظہار کوئی عورت ہو