دیواریں: فرحت نواز
جن سے کھلتے ہیں ساتوں دروازے
اسم وہ اب بھی یاد ہیں لیکن
میرے رستے میں آئی دیواریں
رات بھر پروفیسر اقبال حیدر جنجوعہ جاگتے رہے ۔ ان کے سینے میں بائیں جانب رہ رہ کر عجیب سا درد اٹھتا رہا ۔ ان کی بیگم انکے برابر لیٹی حسبِِ معمول خرّا ٹے لیتی رہیں ۔ خواب گاہ کی شیشے والی کھڑکی جو ان کے سر ہانے کی جانب تھی اس کی بلائنڈس پوری طرح بند نہیں تھیں۔ رئیسہ بیگم اس کو قدرے کھلی رکھا کرتی تھیں۔ دوسری کھڑکی جو ان کے پائنتی سے کچھ دور تھی پوری طرح بند تھی کیونکہ وہ جالی دار تھی اس کے بلائنڈس مستقل بند رہتے۔ سردیوں میں ہیٹنگ تو گرمیوں میں اے سی کے بہانے ۔ یہ مغر ب کی دنیا تھی بند گھروں کی دنیا۔۔ ۔ساری رات اقبال حیدر جنجوعہ کی نگاہیں شیشے والی کھڑ کی پر لگی رہی تھیں۔وہ دائیں کروٹ لیٹے بلائنڈس کے درمیان کی پتلی درزوں سے اسٹریٹ لائٹ کی روشنی کو اپنی آنکھوں پر جھمکتا دیکھتے رہے ۔ جب کوئی گاڑی گلی سے گزرتی تو ان درزوں پر روشنی کی یلغار سی ہوتی اور رات کے سنّاٹے میں عجیب سی گونج والی غرّاہٹ جاگتی اور گلی کی زمین میں ہلکا سا زلزلہ سا آجاتاجو جلد ہی رئیسہ بیگم کے خرّاٹوں میں گم ہو جاتا ۔ اس طرح رات کے تین پہر گزرگئے ۔ چوتھا پہر شروع ہوا۔ اس کے ساتھ ہی شیشے والی کھڑکی سے آنے والی روشنی کا رنگ بدلا زردی میں کمی آئی اور سفیدی میں اضافہ ہو گیا۔ یہ قدرت کی روشنی تھی اسکو نور کہنا مناسب ہو گا۔ اس نور کو لوگوں نے صبح کاذب کے نور کا نام دے رکھاّ ہے ۔ پروفیسر صاحب نے اس نور ، اسٹریٹ لائٹ کی روشنی اور خواب گاہ میں جلنے والے بلب کی روشنی میںاپنی کلائی میں بندھی گھڑی میںوقت دیکھا ۔ پروفیسر صاحب غسل اور وضو کے علاوہ اپنی بائیں کلائی پر گھڑی باندھے رکھتے تھے جیسے کچھ خواتین کنگن پہنے رکھتی ہیں ۔ گھڑی ساڑھے تین بجا رہی تھی ۔
’’ تم آگئیں ۔۔؟ ‘‘ پروفیسر صاحب کی سرگوشی ابھری۔آ واز اتنی کم تھی کہ رئیسہ بیگم کو سنائی نہیں دے سکتی تھی۔ وہ اپنے خرّاٹوں میں مست تھیں ۔پروفیسر صاحب کچھ دیر خاموش رہے ۔ ان کے سوال کا جواب خواب گاہ کی فضا نے نہیں سنا۔
’’تعجب ہے گھرتو ہر طرف سے بند ہے تم گھر میں داخل کس طرح ہو ئیں۔۔۔۔؟‘‘
اس مرتبہ بھی پروفیسر صاحب کے سوال کا جواب خواب گا ہ کی فضا نے نہیں سنا۔
’’تم چپ ہو ایک آدھ بات بھی نہیں ہوسکتی ۔۔۔۔؟‘‘
خواب گاہ کی فضا نے رئیسہ بیگم کے خرّاٹوں ہی پر اکتفا کیا اور پروفیسر صاحب کی ممکنہ سرگوشی پر کان لگائے منتظر رہی۔ کچھ وقت گزرا۔’’اچھا تو اب چلیں ۔ باہر چل کر ہی بات کرینگے۔‘‘
خواب گاہ نے پروفیسر صاحب کی یہ سر گوشی آخری با ر سنی اور رئیسہ بیگم کو معنٰی خیز نظرو ں سے دیکھا جو اپنے خراٹوںمیں مگن تھیں ۔ اس کے بعد صبح کاذب کا نور بجھ گیا ۔کچھ وقت اسٹریٹ لائٹ کی زرد روشنی میں گزر ا پھر صبح صادق کا نورشیشے والی کھڑکی کے نیم بلائنڈوں میں سے جھانکا اور خواب گاہ میں اترا۔کچھ وقت اور گزرا۔ رئیسہ بیگم کے خراٹے بند ہو گئے ۔ وہ ہڑ بڑا کر اٹھیں اور بستر کی داہنی جانب منہ کرکے آواز لگائی۔۔
’’اٹھو جلدی کرو ۔ نماز کاوقت جارہاہے ۔میںچلی واش روم۔‘‘ بستر میں اٹھ کھڑے ہونے سے ہلچل سی مچی اور بند ہوگئی۔ دروازے کے کھلنے کی آواز بھی خواب گاہ کی فضا نے سنی۔ پھر گہرا سنّاٹا چھا گیا۔۔۔۔ وقت گزرا ۔۔۔ رئیسہ بیگم کمرے میں لوٹیں ۔ نماز کے لئے مختص کونے میں مصلّٰی بچھایا ۔
’’ آج نماز نہیں پڑھنی ہے ۔۔۔ اٹھو جلدی کرو ۔‘‘
نماز شروع کرنے سے پہلے پروفیسر صاحب کے لئے ہانک لگائی اور ادائیگی نماز میں مصروف ہو گئیں۔ نماز کے بعد تسبیحات اور تلاوتِ کلام پاک ان کا معمول تھا ۔ نماز کے بعد بھی انہوں نے پروفیسر صاحب کو آواز دی۔دن نکل چکا تھا فجر کا وقت گزر چکاتھا ۔ پروفیسر صاحب کی جانب بستر اور لحاف میں کوئی حرکت پیدا نہیں ہوئی تھی۔ رئیسہ بیگم سوچ میں پڑگئیں ’’ شوہر کو اٹھایا جائے یا سوتے رہنے دیا جائے۔ فجر تو گئی ۔۔۔‘‘ وہ دوبارہ مصلّے پر بیٹھ گئیں ۔ معمول کے اوراد اور وظائف کے بعد وہ اٹھ کر سیدھی پروفیسر صاحب کی جانب گئیں اور ان کو اٹھانے لگیں۔۔۔ اور پھر کمرے کی فضا کے ساتھ ساتھ سارے گھر کی فضا نے ان کی بین سنی وہ اپنا سر پیٹ رہی تھیں ، بال نوچ رہی تھیں ،رو رہی تھیں ، چلّا رہی تھیں ۔’’ مولا میرے یہ کیا ہو گیا ۔۔۔۔وہ چڑیل ان کو لے گئی ۔‘‘ ان کی زبان تھم نہیں رہی تھی وہ شاید اپنے حواس میں نہیں تھیں۔ ان کی بہو اور بہو کے پیچھے بیٹا خواب گاہ میں داخل ہو ئے ۔ بہو ان سے لپٹ گئی اور اس نے ان کے سرکوبی کرتے ہوئے ہاتھوں کو مضبوطی سے پکڑ لیا ۔ بیٹا ان سے پوچھنے لگا ۔
’’ کیا ہوا امّی ۔۔۔ بتائیں تو سہی۔‘‘
رئیسہ بیگم نے بیٹے کو دیکھا ۔ اور بہو سے ہاتھ چھڑاکر بیٹے کی طرف بڑھیں۔ بیٹا بھی ان سے لپٹ گیا۔
’’ وہ چلے گئے۔۔۔۔ تیرے بابا ہم کو چھوڑ کر چلے گئے اس چڑیل کے ساتھ ۔ ‘‘
’’کون چڑیل ۔۔؟ امّی یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں ۔‘‘
بیٹے نے ماں کو اپنے سے علیحدہ کرتے ہوئے حیرت سے پوچھا ۔
’’ وہی چڑیل ارجمند بانو ۔‘‘
ماں کی زبان سے ارجمند بانو کا نام سنتے ہی بیٹے کے ذہن میں ، سیکنڈوں میں برسوں کے واقعات چھلک پڑے ۔ ارجمند آنٹی۔۔۔۔ جن کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا ۔۔۔ وہ بابا سے شادی کرنا چاہتی تھیں ۔ جب بابا کی شادی کا کارڈ ان کو ملا تو وہ فرش پر گر کر چلّا چلّا کر روئی تھیں ۔ انکے بھائی اور بہنوں نے لوگوں کو یہ کہہ کر چپ کرایا تھا کہ ڈاکٹر نے غلط انجکشن لگا دیا تھا اس کا ری ایکشن ہوا ۔ پھر ارجمند آنٹی کی شادی ہوئی انتہائی واہیات آدمی سے اور وہ شا دی کے پہلے سال کے دوران ہی اللّٰلہ کوپیاری ہوگئیں۔ ارجمند آنٹی جو وفات کے بعد بابا کے خواب میں آئیں اور چاول مانگے ۔امی نے خواب سن کر غریبوں میں ایک دیگ تقسیم کروائی ۔ اس کے بعد یہ معمول ہوگیا جب بھی بابا کے خواب میں ارجمند آنٹی آتیں باباامّی سے ذکر کرتے اور امّی غریبوں کو کھانا کھلواتیں ۔اور چند روز قبل بھی اس نے امی کو بابا سے یہ کہتے سنا تھا۔ ’’ اس ملک میں کیا کیِا جائے سمجھ میں نہیں آتا ۔اپنے ملک میں تو اور کہیں نہ ہوا تو کسی مزار پر لنگر تقسیم کروادیتے تھے ۔ وہ سمجھ گیاتھا کہ ارجمند آنٹی پھر بابا کے خواب میں آئی ہونگی لیکن وہ چپ رہاتھا۔ اس نے یہ محسوس کرلیاتھا کہ اس کی ماں شایداس چاولوں والے ٹوٹکے سے بیزار ہوگئی تھی ۔۔ کب تک اس کو نبھاتیں۔۔ورنہ کینیڈامیں بھی مساجد اور مدرسے ہیں بریانی کی دیگ یہاں بھی تقسیم کی جا سکتی تھی ۔ ایسا ہی کچھ سوچ کر اس نے اس معاملے میں دخل دینا مناسب نہیں سمجھاتھا۔’’ شاید امی یہ سلسلہ ختم ہی کر دینا چاہتی ہیں ۔‘‘ اس نے شاید یہ نتیجہ نکالاتھا۔
بیٹا اس دوران ماں کو چھوڑ کر باپ کی طرف متوجہ ہو گیاتھا۔ اس نے کمفرٹر ہٹا دیاتھا۔ اس کا باپ ساکت و صامت لیٹا تھاجیسے گہری نیند سو رہا ہو لیکن اس کی آنکھیں کھلی تھیں۔اور پُتلیاں جامدتھیں۔ اس نے ان کی کلائی میں ان کی نبض کو ٹٹولا۔ نبض نہیں ملی ۔ شرٹ کے اوپر کے بٹن کھولے اور اپنا دایاں کان ان کے سینے کے بائیں جانب ٹکا دیا ۔ اس کے بعد اس نے اپنا سر اٹھایا اور غیر ارادی طور پر جھٹک دیا ۔ باپ کی شرٹ کے گریبان کو برابر کیا ۔ اسکے بٹن لگائے ۔ ان کی کھلی آنکھوں کو انتہائی نرمی سے پپوٹوں کے غلاف سے ڈھانک دیا ۔ ماں کو اپنی بیوی کے ہاتھوں میں چھوڑ کرماں باپ کی خوابگاہ سے باہر بھا گا اور۹۱۱ کو فون کرنے میں مصروف ہو گیا۔ اس کو یقین ہو گیاتھا کہ اس کا باپ ان سب کوچھوڑکر جا چکا تھا۔لیکن ڈاکٹر سے اس کی تصدیق کروانا لازمی تھا۔پھر تو لازمی معمولات کا ایک سلسلہ ان سب کا منتظر تھا ۔
خواب گاہ سے بین کی صد ا ٹھہر ٹھہر کر بلند ہو رہی تھی ۔جس کو سارے گھر کی فضا پوری توجہ سے سن رہی تھی
بیٹا اپنے باپ کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ ’’ انہوں نے امی کے اوپر کوئی سوتن لانا گوارا نہیں کیا۔ ورنہ ارجمند آنٹی اس کی سو تیلی ماں ہوتیں ۔‘‘وہ ارجمند آنٹی کے بارے میں بھی سوچ رہا تھا ۔ سوائے با با اور امی کے شادی کے دعوت نامے کے واقعے کے ان کے دل کا معاملہ پھر کبھی ظاہر نہ ہوا۔ انہوں نے اپنی شادی بھی ہونے دی اور پھر دنیا سے چلی بھی گئیں۔لیکن یہ خواب کا رشتہ ۔۔۔۔۔؟ ۔۔۔