ابرِ بیزار چھٹا، زندگی ہنستی آئی
خاک زادے کے لیے حسن کی دیوی آئی
جب سبھی لوگوں کو اشیائے ضروریہ ملیں
میرے حصے میں کسی شخص کی خفگی آئی
خوف لاحق ہے کہ موت اس سے نہ پہلے آجائے
وہ بھی مدت سے کہے جاتی ہے آئی آئی
اپنے مہمان کی تکریم میں رونا ہے مجھے
صبح دم دل کے دریچوں میں اداسی آئی
سیکڑوں رنگ بدلتے ہوئے چہرے دیکھے
بعد ازاں ہاتھ یہ درویش نگاہی آئی
اس کی سالار ، خوشی ، دکھتی نہیں ہے عاجز
غم کی فوج اب کے بہت ناچتی گاتی آئی