وہ وقت دور نہیں کہ قبروں کے کتبوں پہ
عربی عبارتوں کی بجائے
‘‘پچاس درخت’’
لکھا جائے گا
آنے والے زمانوں کے لوگ
ایسی قبروں پہ مزار بنائیں گے
سانس کا دیوتا!
رائج ہوگا کہ وہ جنتی ہے
اْس کے ‘‘’’حقوق الدرخت ‘‘’’بہت اچھے تھے!
فاتحہ پہ آنے والوں کو
مرحوم کی آبیاری کے قصے سنائے جائیں گے
جنازے سے پہلے اعلان ہوگا
‘‘اگر کسی کا مرحوم سے کوئی لین دین
پانی ،بیج یا پودا ہو تو ہم ذمہ دار ہیں’’
لوگ رشتہ دیکھنے جائیں گے
اونچے شملے والا بابا فخر سے بتائے گا
مْجھے لوگ گاؤں میں
‘‘۱۰۰درختیہ’’کہتے ہیں
نئے رشتہِ ازدواج سے
نکاح خواہ اول و آخر ایک ہی بات پوچھے گا
سکہِ رائج الوقت بہ قیمت تین قلمیں
قبول ہے؟
کوئی امیر شاہ زادہ!
منہ دکھائی میں بیوی کو
ایک کلو آکسیجن دے گا!
جہیز میں قیمتی سامان ملے گا
اْس صندوق کو تین تالے لگے ہونگے
لوگ منہ جوڑ کے باتیں کریں گے
مہینوں شہر میں چرچے رہیں گے
‘‘تین پاؤ بیج مع اٹھارہ قلمیں’’
کسی جوان سے عْمر پوچھوگے تو بتائے گا
تین درجن درخت برابر قد
یعنی اٹھارہ سال!
عہدوں کا تعین نئے انداز سے ہوگا
‘‘سبز ‘‘حروف میں لکھا جائے گا
تاریخ میں ایک شخص گزرا ہے
تین گھنٹے پانی لگا سکتا تھا!
کنواری لڑکیاں منتیں مانگیں گی
پیپل کے پیڑ کو نازک ہاتھوں سے
اکتالیس دن پانی لگا کر
محبوب سے ملنے کی دعا کریں گی
مشہور ہوگا کہ فلاں درخت کا پتا
اگر زمین پہ گِرنے سے پہلے پکڑ لیا
بیٹا پیدا ہوگا!
قانون ساز اسمبلیاں بِل پاس کریں گی
ایک پتا توڑنے کی سزا
‘‘دو سال قید مع دس درختوں کی پرورش’’
لیکن اِس وقت میں بھی جانِ سہیل
مْجھے فکر ہے کہ تیرے نقوش زندہ رہیں
میں اپنی محبتوں میں صدیق ہوں
یعنی تیرے بچوں کو دھوپ نہ لگے میرے گاؤں کے راستے پہ
سو تمہارے بعد درخت لگائے ہیں آبیاری کی ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔