کہیں فلک ہے کہیں ہے زمیں ، کہیں میں ہوں
کہیں بھی کیا میں نہیں ہوں ؟ نہیں ، کہیں میں ہوں
ہم ایک دوجے سے ملنے کی کوششوں میں ہیں
یہیں کہیں ہے خدا اور یہیں کہیں میں ہوں
یہ آئینے کا خلل ہے ، یا گھٹ گیا ہوں میں ؟
کہ ہر طرف ہے تو ہی تو ، کہیں کہیں میں ہوں
چمک رہا ہوں کہ تیرے ہی گرد گھومتا ہوں
ترے مدار میں کیا اے زمیں ، کہیں میں ہوں ؟
ترے حضور بھی خود کو میں ایک جا نہ ملا
ترے حضور کہیں ہے جبیں ، کہیں میں ہوں