میں حالِ دل کہوں کس سے ترے سوا مرے دوست
مجھے بتا مرے مالک ، مرے خدا ، مرے دوست
مزار ہے مرے گاؤں میں اسپتال نہیں
دوا کے مول یہاں پڑتی ہے دعا مرے دوست
سوال یہ تھا "ترا ہاتھ کون تھامے گا"
تو دل یقین سے یہ بھی نہ کہہ سکا "مرے دوست"
خموش رہ کے میں جب عین مرنے لگتا ہوں
کسی کو روک کے کہتا ہوں "کچھ کہا مرے دوست؟
پھر اک فقیر نے کاندھے کو تھپتھپا کے کہا
تجھے خدا سے ملاتا ہوں ، ساتھ آ مرے دوست