وہ خود کو ہم سے دُور کرے جارہے ہیں یار
اور ہم کو دیکھو ! غم سے بھرے جارہے ہیں یار
سب لوگ جی رہے ہیں یہاں اپنی موج میں
اور ہم ہیں جو کہ تم پہ مرے جارہے ہیں یار
جب تک نہیں ہوئی تھی محبت ، سکون تھا
جب سے ہوئی ہے تب سے ڈرے جارہے ہیں یار
آغاز عشق میں تو بہت خوش تھے ہم مگر
اب ایک دوسرے سے پرے جارہے ہیں یار
رب جانے کیا سکون ہے زیرِ زمین جو
قسمت کے سارے کھوٹے کھرے جارہے ہیں یار
سوچا تھا مل کے باتیں کریں گے ہم آپ سے
اور آپ تہمتیں ہی دھرے جارہے ہیں یار