پنکھ لگتے ہیں تو دُنیا سے گُزر جاتے ہیں
ہم وہ پنچھی ہیں جو اُڑتے ہیں تو مر جاتے ہیں
اے نجومی! یہ بتادے تو تجھے مانوں پھر
چھوڑ جاتے ہیں جو وہ لوگ کدھر جاتے ہیں
ہم ترے نام سے یُوں ڈرتے ہیں جیسے بچے
بچپنے میں کسی آواز سے ڈر جاتے ہیں
چاہنے والے مزہ تب ہے اکیلے کو سنبھال
میلہ لگنے پے تو دربار بھی بھر جاتے ہیں
لوگ پاگل ہیں مجھے گھر کا کہے جارہے ہیں
دل سے نکلیں تو بھلا کون سے گھر جاتے ہیں
تیرے دیدار کی حسرت سے ترے گاؤں میں ہم
کام ہوتا بھی نہیں کوئی مگر جاتے ہیں