یوں تو دنیا میں کئی لوگ ہی غفلت میں مرے
مجھ سے نادان ترے عشق کی چاہت میں مرے
روگِ فرقت غمِ چاہت سے زیادہ ہے مگر
ان کی کیا بات کریں جو تری قربت میں مرے
کتنی آنکھیں ہی تری دید کو ترسی ہوں گی
کتنے ہی پھول ترے چھونے کی رغبت میں مرے
رشتہِ ذوقِ محبت ہی سبب ہے سب کا
جتنے بھی لوگ یہاں درد کی ہیئت میں مرے
آج کل جسم محبت ہے جدائی قسمت
عزتیں دیکھی نہیں جسم کی لذت میں مرے
مجھ سے بھی دور ہوئے اور اذیت جھیلی
پھر مرے بعد جدائی کی تمازت میں مرے
تم بھی ویسے ہو مرے یار تذبذب میں گھرے
تم سے پہلے بھی کئی لوگ یوں حسرت میں مرے