المختصر میں آ گیا اپنی مراد تک
ہر شخص میرے ساتھ تھا ذاتی مفاد تک
اس نے وہ زخم دل پہ لگائے ہیں کیا کہوں
میں گن نہیں سکا کبھی جن کے عِداد تک
راضی کریں گے کیسے یہ پروردگار کو
پورے نہ کر سکے جو حقوق العباد تک
افسوس حکمِ حق کی تو تکمیل تک نہ کی
اِک رسم بن گیا ہے نبی کا مِلاد تک
جاتے وہ ایک بار ترا مڑ کے دیکھنا
اک کھلبلی رہی ترے جانے کے بعد تک
یہ اور بات ہے کہ وہ بھٹکا جگہ جگہ
میں نے اسے دکھائی ہے راہِ رشاد تک