کیوں بھٹکتے ہو بیابانوں میں
وہ تو رہتا ہے دل کے خانوں میں
ہائے افسوس چار سُو ہی یہاں
نا سلوکی ہے خاندانوں میں
کوئی منصور تھا کوئی سقراط
اور ہم خوش رہے دیوانوں میں
ہم تو ایماں اُٹھائے پھرتے ہیں
اور تقوی ہے بے ایمانوں میں
رنج سہہ کر گزار دی ہے حیات
رہ کے چُپ چاپ مہربانوں میں
آج کل دوستو ! کہاں کوئی
راز رہتا ہے راز دانوں میں
کب سکوں پائیں گے سُہیل بھلا
لوگ اُلجھے ہوئے زمانوں میں