یہ میرے دل میں ہی کوئی خوشی کی لہر رقصاں ہے
یا تیرے آنے پر سچ مچ ہوائے شہر رقصاں ہے
فقط اک پہر کو ٹھہرا تھا آکر خیمۂ جاں میں
مگر اب تک بدن میں قرب کا وہ پہر رقصاں ہے
وہ کب سے ہاتھ پاؤں دھو کے واپس جا چکا لیکن
ابھی تک لمس کے نشے سے ساری نہر رقصاں ہے
نہ جاں سے مارتا ہے مجھ کو اور نہ جینے دیتا ہے
رگوں میں اب تمہارے پیار کا جو زہر رقصاں ہے
کسی کے حُسن کے موہوم سے اک عکس کو پا کر
غزل کے لفظ گاتے ہیں،غزل کی بحر رقصاں ہے
شبابؔ اب کے وہ میرے اس قدر نزدیک آیا ہے
زمیں رقصاں،فلک رقصاں ہے سارا دہر رقصاں ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔