اک جہانِ رنگ و نکہت منتظر اْس پار ہے
دل کو ہے کامل یقیں پر عقل کو انکار ہے
جس قدر ہو منزلِ مقصود کی تابانیاں
یاد رکھو اْس قدر ہی راستہ ، پْر خار ہے
بدنما دِکھتا ہے آئینے میں ہر عکسِ جمیل
یہ حقیقت کا ہے پَرتو یا فقط زنگار ہے
بن کے ناصح کر سکے اصلاح اوروں کی وہی
جو خطاؤں سے مْبرّا ، صاحبِ کردار ہے
دے رہا تھا آج اک مسکین گلیوں میں صدا
بانٹ لے جورزق ، کوئی!!! پیروِ انصار ہے؟؟
بادِ صرصر کے مخالف جب بھرے اونچی اڑان
تب عیاں ہو جائے گا بے پر ہے یا پردار ہے
یاد رکھے کون تجھ کو بزمِ عشرت میں غزل?
نا تْو کوئی ہے کرشمہ ، نا کوئی شہکار ہے