ٹوٹے پھوٹے آئینوں میں جس نے دیکھا روپ
کرچی کرچی بدن کو پایا، بگڑا ملا سروپ
جگ کی جھوٹی سچی سن کر بہت لیا ہے رو
اب تو اپنے آپ کی سن لے، اٹھ چل آنکھیں دھو
جادو کے ٹوٹے درپن میں نہیں ہیں تیرے لیکھ
من کی سچی آنکھ سے مورکھ تن کی چھب کو دیکھ
توڑ کے کچے کانچ کی رسیاں، شیشے کی دیوار
اندیشوں کی کٹیا سے چل امیدوں کے دوار
کاہے تھمنا ندی کنارے جب جانا ہو پار
تو ہی نیا ، تو ہی بازو ، تو ہی خود پتوار
پانی میں تو ایک کنول سی، مٹی میں خوشبو
تاروں میں تو ایک ستارا، لاکھوں میں اک تو