جس روز تم جدا ہوئے گھر میں ٹھہر گئی تھی رات
پوچھو نہ بس گزار لی، لیکن بڑی کڑی تھی رات
بھیگی ہوا کی جھیل میں چاندنی تیرتی رہی
ساحل پہ آ کے سو گئی یادوں کی اک بھلی سی رات
شام کے رنگ تو تمام تتلیاں گھر کو لے گئیں
شبنم نے پھر سنبھال لی پھولوں کی بے بسی کی رات
تم جو گئے تو شہر کا منظر ہی کچھ بدل گیا
جاگا دھواں دھواں سا دن، سوئی بجھی بجھی سی رات
کل شب ترے غریبِ شہر چپ تھے برائے احترام
برف پہ بال کھول کر چین سے سو رہی تھی رات
حکمِ فقیہِ شہر پر نغمے خموش ہو گئے
ورنہ ریاضؔ کے لئے باقی بہت پڑی تھی رات