ابھی کچھ دیر باقی ہے پرندے جاگ جائیں گے
ابھی کچھ دیر میں گستاخ کرنیں فاش کر دیں گی
وہ برگِ گل پہ چپکے سے لٹی شبنم کا رازِ دل
فضا کی ملگجی سی خامشی کے اک پڑائو پر
افق کا آخری روشن ستارا الوداع کہہ کر
گزشتہ شب کے خوابیدہ مسافر چھوڑ جائے گا
وہ آنگن میں برستی موتیے کی جاگتی خوشبو
وہ جسکی چند بوندیں میں اٹھا لایا ہوں کمرے میں
تمہاری ادھ کھلی آنکھوں کے خوابوں پر چھڑکنے کو
تمہاری منتظر وہ سائیڈ ٹیبل پر پڑی چائے
مرا جھک کر ہٹا دینا تمہارے رخ سے بالوں کو
تمہاری نیم خوابیدہ نظر کا مطمئن لہجہ
میری انگلی کے پوروں سے وہی مانوس سرگوشی
'ذرا آہستہ جانِ جاں، پرندے جاگ جائیں گے'