طلوع کے سرخ موسم میں
ہمارے گھر کی چمنی سے ابلتا کچھ دھواں لے کر
ہوا نے آج پھر جاناں ترا خاکہ بنایا ہے
تمہارے ہونٹ یونہی آدھ کھلے رہتے تھے صبحدم
نہایت مختصر جیسے مجھے کچھ بات کہنی ہو
'میری میٹنگ ہے، بچے آج تم اسکول لے جانا
جب آفس آئو تو اسٹاف کو تنخواہ دے دینا'
وغیرہ،
شال کندھوں سے یونہی ڈھلکی سی رہتی تھی
جو اکثر تم گراتے چائے کی پیالی اٹھاتے وقت
جسے میں پھر اٹھا کر ڈالتی تھی، اور ہم دونوں
بہت نزدیک ہوتے تھے گھڑی بھر کو، چلو چھوڑو
بہت سردی ہے، اپنی شال ایسے ہی ڈھکے رکھو
ذرا کچھ دیر سورج تھام لو، موسم ذرا روکو
میں بچوں کو ابھی کچھ ناشتہ دے لوں تو آتی ہوں
وہ کل میں نے سبھی اسٹاف کو تنخواہ دے دی تھی