ان آوازوں کے جنگل میں
مرے پر باندھ کر اُڑنے کا کہتے ہو
رہائی کے لئے بینائی کو اک جرم کہتے ہو
مری پلکوں کو سی کر
موسموں کو جاننے پہچاننے کی شرط رکھتے ہو
مرے پاؤں کو زنجیروں کی بے چہرہ
صداؤں سے ڈراتے ہو
مری آزادیٔ پرواز کی خواہش کو
جنگل کے لئے آزار کہتے ہو
مرے جذ بوں کی کشتی کو جلاتے ہو
مرے افکار کے دریاؤں کو
صحراؤں کا قیدی بناتے ہو
مگر سن لو
کوئی موسم ہو
حبس وجبر کا، صحرا کا
جنگل کا
یہ قیدی سانس لیتا ہے
٭٭٭٭