عشق کی دنیا کے اَن دیکھے نگر رہتے ہیں
عُمر تھوڑی سی ہے اور اِتنے سفر رہتے ہیں
ابھی کچھ اور چکانے ہیں زمانے کے حساب
اِس کے کچھ قرض ابھی تک مِرے سر رہتے ہیں
کبھی سوچا ہی نہیں آپ نے، یہ کون ہیں جو
اپنا گھر ہوتے ہوئے آپ کے گھر رہتے ہیں
شہر اک اور وہاں آپ ہی بَس جاتا ہے
جس جگہ جا کے ترے شہربدر رہتے ہیں
متلاطم ہے ابھی تک مِرے دل کا دریا
اور دریا میں بہت سارے بھنور رہتے ہیں
جسم کا سحر، طلسم آنکھ کا، لب کے منتر
اُس میں بھی کتنے فسوں ساز ہنر رہتے ہیں
چور سا آن چھپا ہے مِرے من میں حیدرؔ
اُس کے سینے میں بھی سو طرح کے ڈر رہتے ہیں