درد و غم سے اسے نکھارتا ہے
عشق انسان کو سنوارتا ہے
برف، بادل، ندی، سمندر، اَشک‘
پانی بھی کتنے روپ دھارتا ہے
باقی جتنی ہے زندگی دل کی
نذر تیری اِسے گزارتا ہے
اُس پہ سارا معاملہ چھوڑا
اب ڈبوتا ہے چاہے تارتا ہے
خود ہی مطعون ہو گیا آخر
جو فقیروں کو طعنے مارتا ہے
میں تو ساحل کی ریت ہوں پیارے
ریت سے کون گھر اُسارتا ہے
مسترد کرکے جھوٹی تاریخیں
وقت خود جھوٹ سچ نتارتا ہے
کس نے اندر کے در سے دی ہے صدا
کون ہے اور کسے پکارتا ہے
اک فرشتہ ہے عشق کا حیدرؔ
مجھ پہ جو شاعری اُتارتا ہے