سُونی سُونی سی ہماری آنکھ کیوں بیتاب ہے
کس لئے یہ د ل ہمارا ما ہئی ِ بے آب ہے
دیکھتے ہی دیکھتے یہ کیا ہوا ہے انقلا ب
چھپ رہاہے کس کے غم میںڈرتے ڈرتے آفتاب
چل بسی ہے آج ماںکی مامتا کیوں چھوڑ کر
کس سفر پر ہے رواں ہر ایک سے منہ موڑ کر
پر سکوں چہرہ ہے کتنا سوگئی آرام سے
ہر گھڑی مصروف رہتی تھی نہ تھکتی کا م سے
اک ذرا تکلیف پر بے چین ہو جا تی رہی
درد و غم سب بھول کر اوروں کے کام آتی رہی
اک دعاؤں کا خزانہ تھا جو رخصت ہوگیا
مامتا کا گوہر ِ نایاب رخصت ہو گیا