کس موج میں ہے راہ سے بھٹکا ہوا دریا
صحرا کی طرح دل میں اُترتا ہوا دریا
اے حُسنِ دلِ آرا کبھی توُ نے بھی ہے دیکھا
پلکوں تلک آ آ کے پلٹتا ہوا دریا
ہم جس کی بپھرتی ہوئی موجوں میں رواں تھے
دیکھا ہے پھر اِک بار وہ دیکھا ہوا دریا
سینے میں اُتر جانے کو بے تاب ہے کتنا
جنگل کی خموشی کو نگلتا ہوا دریا
اِک دن تیری آنکھوں کے کناروں سے بہے گا
بادل کی طرح دل سے لپٹتا ہوا دریا
اِک وحشتِ بے نام نہیں چھوڑتی دل کو
اک ہجر ہے اور ریت کا اُڑتا ہوا دریا
کیا جانئے، کس رنگ میں، کس گھاٹ لگے گا
یہ سنگ و شجر روند کے جاتا ہوا دریا
پھر حرف ِ رگِ دل کی تہوں میں سے نکل کر
آیا ہے سرِچشم اُمڈتا ہوا دریا