چمن سمیٹ کے رنگِ قبا میں رکھتا ہوں
مہک تمھاری دلِ گل ادا میں رکھتا ہوں
کسی کے ہاتھ لگے اور نہ کوئی چھو پائے
وہ ایک سم جسے رقصِ انا میں رکھتا ہوں
میں اک قدم تری دہلیز سے اُٹھاتا ہوں
تو دوسرا قدم اوجِ خلا میں رکھتا ہوں
تمھارے جھوٹ، تمھارے ہی منہ پہ دے ماروں
یہ حوصلہ دلِ بے دست و پا میں رکھتا ہوں
بجھا سکے تو بجھا دے کہ میری عادت ہے
دیا جلا کے ہمیشہ ہَوا میں رکھتا ہوں
ہتھیلیوں پہ اُگاتا ہوں پھول صحرا کے
سراب چھان کے صحن وفا میں رکھتا ہوں
وہ اور ہیں جنھیں قدموں کی دھول جانتا ہوں
تمھیں تو خیر میں حیرت سرا میں رکھتا ہوں
عدو بھی تم ہو، عداوت بھی تم، عدالت بھی
اِسی لیے تمھیں خوفِ خدا میں رکھتا ہوں
گماں میں رکھتی ہے تم کو اگر ستم صِفتی
یقین میں بھی تو روزِ جزا میں رکھتا ہوں