دیار عشق میں محبوب سے وفا نہ ملے
تو پھر محال ہے جینا جو حوصلہ نہ ملے
تلاش حسین کی بستی میں جب کیا میں نے
حسین تر مجھے ایسا تیرے سوا نہ ملے
یہ درد عشق میرا دل کو اک دلاسہ ہے
میں چاہتا ہوں کی اس درد کی دوا نہ ملے
ستم تو یہ ہے کہ یس بے وفا زمانے میں
کہیں پہ ڈھونڈ کے بھی درد آشنا نہ ملے
میری دعا ہے کہ جیون میں یونہی حشر تلک
کوئی بھی غم تجھے میرے ستم روا نہ ملے
وہ آدمی نہیں انسان دہر میں اقبال
کہ جس کے دل میں اگر خوف اور رجا نہ ملے
٭٭٭٭