گفت گو تھی ترے اشارے تک
بات ہوتی گئی کنارے تک
دل کی دلّی کو لوٹنے والے
لْوٹ لیں آخری خسارے تک
ہم کو لاحق زمیں ہے فرقت کی
وصل اْگتا نہیں ہمارے تک
رات کی رات سوچنے والے
آ گئے تیرگی کے گارے تک
ہاتھ پڑتا ہے کارِ دنیا کا
ربط جس کا بنا ہمارے تک
اِک محبّت ہے جو نہیں گرتی
فرشِ شب میں پڑے ستارے تک