عجب آواز آئی آسماں سے
نکل جاؤ، خدا کے درمیاں سے
بڑی بے فیض ہے آوارگی بھی
بڑا بے زار ہوں آوارگاں سے
مرا گھر روز مجھ سے پوچھتا ہے
یہ لاتے ہو اداسی کس مکاں سے؟
ضرر ہے شام تک گزرا ہوا وقت
اذیت دن ڈھلے آئی کہاں سے؟
کھڑی ہے آخری بس سوچتا ہوں
میں بھی نکلوں قیامِ رفتگاں سے
بکھر جاتے ہیں منظر شام کے تو!
خموشی گھورتی ہے آشیاں سے
٭٭٭٭