چند احباب بنے میرے فسادی وہ بھی
ایک محبوبہ بنائی تھی چھڑا دی وہ بھی
تجھ سے منسوب ہر اک چیز بہا لے گئے اشک
ایک تصویر بچائی تھی جلا دی وہ بھی
مجھ کو بس میرے گزشتہ کا بھرم رکھنا تھا
تجھ سے اک بات چھپانی تھی بتا دی وہ بھی
ایسے بچھڑے کہ بچھڑ کر ہوئے پہلے جیسے
ہو گیا ختم میں اور ہو گئی آدھی وہ بھی
بے وفائی تو چلو کوئی بھی کر سکتا ہے
تم نے اوقات دکھانی تھی دکھا دی وہ بھی
میرے اِس ہاتھ میں اک ہاتھ تھا جو چھوڑ دیا
دوسرے ہاتھ میں سگریٹ تھی بجھا دی وہ بھی
تیرے آنے کی خوشی میں نئے کپڑے پہنے
کسی کی قبر تھی سینے میں چھپا دی وہ بھی
٭٭٭٭