صلیبِ مرگ پہ آؤ بدن اتارتے ہیں
تمام عمر کی لادی تھکن اتارتے ہیں
وہ میری ذات سے یوں منحرف ہوا جیسے
کسی قمیض سے ، ٹوٹے بٹن اتارتے ہیں
ہر ایک سانس ادھڑتی ہے سود بھرتے ہوئے
یہ قرضِ زندگی سب مرد و زن اتارتے ہیں
عطا ہر ایک پہ ہوتی نہیں کہ مالکِ کُن
چنیدہ لوگوں پہ رزق سخن اتارتے ہیں
جو عشق گھول کے دیتے ہیں میٹھے لہجوں میں
رگوں میں زہر بھی وہ دفعتاً اتارتے ہیں
گلے لگاؤ کہ تھک جانے والے لوگوں کو
دلاسہ دیتے ہیں ، دل کی گھٹن اتارتے ہیں
٭٭٭٭