سب جن کے لیے جھولیاں پھیلائے ہوئے ہیں
وہ رنگ مری آنکھ کے ٹھکرائے ہوئے ہیں
اک تم ہو کہ شہرت کی ہوس ہی نہیں جاتی
اک ہم ہیں کہ ہر شور سے اکتائے ہوئے ہیں
دو چار سوالات میں کھلنے کے نہیں ہم!
یہ عقدے ترے ہاتھ کے الجھائے ہوئے ہیں
اب کس کے لیے لائے ہو یہ چاند ستارے؟
ہم خواب کی دنیا سے نکل آئے ہوئے ہیں
ہر بات کوبے وجہ اداسی پہ نہ ڈالو!
ہم پھول کسی وجہ سے کملائے ہوئے ہیں
کچھ بھی تری دنیا میں نیا کیوں نہیں لگتا
لگتا ہے کہ پہلے بھی یہاں آئے ہوئے ہیں
ہے دیکھنے والوں کے لیے اور ہی دنیا
جو دیکھ نہیں سکتے وہ گھبرائے ہوئے ہیں
سب دل سے یہاں تیرے طرف دار نہیں ہیں!
کچھ صرف مرے بُغض میں بھی آئے ہوئے ہیں
ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بڑے لیکن
کہتے ہیں کہ سادات یہاں چھائے ہوئے ہیں
٭٭٭٭