جوڑے سے اک پھول گرا تھا کوڑے سے لے آیا ہوں
اب تک تیرا شاعر تھا اب کوڑا چننے والا ہوں
بڑھ کر آپ سے ہاتھ ملاتا لیکن میری مجبوری
میں نے جس کے پاؤں چھوئے تھے ہاتھ وہیں رکھ آیا ہوں
کشتی میں جو بھی جھوٹا ہے اسکو دریا برد کرو
مجھ کو اپنی فکر نہیں ہے میں تو تیر بھی سکتا ہو
مجھ کو تم جیسے دوچہرا لوگوں سے ڈر لگتا ہے
تم لوگوں میں سب سے زیادہ اپنے آپ سے ڈرتا ہوں
پہلے ساری رات گزاری اس نے مجھ پر مرنے میں
باقی دن یہ گنتے گزرے میں کس کس پر مرتا ہوں
وہ لاشوں کو گنتے گنتے گنتے مجھ تک آئیں گے
جانے پھر میرا کیا ہوگا میں تو بول بھی سکتا ہوں
اس میلے پر سانپ سپرے آپس میں کچھ کرتے ہیں
اور پھر سب سے آخر میں میں اپنے آپ کو ڈستا ہوں
اس سے پہلے بھی دنیا کو شعر سنانے آیا تھا
آنے کی توفیق ملی تو پھر آؤں گا چلتا ہوں