یادوں کے ڈاک خانے میں
اداس شام کی ڈاک
بنا ٹکٹ کے نہیں بھیجی جاتی
اور کوئی نہیں جانتا
دبی آہوں کی روشنائی کتنی قسموں کی ہے،
اور خشک آنسوؤں کی دوات میں مُو قلم بھگو کر لکھنا
کس قدر محال ہوتا ہے
کہ ہر تار بھیجنے والا
دکھوں کا گوند کبھی لگا پاتا ہے
تو کبھی اس خوف میں رہتا ہے کہ کہیں
قسمت کا دیوتا
اس کا نالہ پڑھ نہ لے
جس میں دل کی سلگن وصل کے خواب
ہجر کے ادھورے رتجگے تحریر ہوتے ہیں
وہ محبت کے تار بھیجنے والا
دن کی بالکونی میں بیٹھ کر
پوروں کی پنسل شارپ کرتے ہوئے
خوشی کے ربڑ سے
دوریاں مٹانے کی کوشش کرتا ہے
اور ہر کچی سطر میں یہی پروتا ہے
کہ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے
خواہ محبت سامنے والی گلی میں ہو
یا سرحد پار کسی ویران قصبے میں
قسمت کا دیوتا
اُن پر ہمیشہ مہربان رہتا ہے
اُس بارش کی طرح جو تیز دھوپ میں آتی ہے
اُس تیز دھوپ کی طرح
جو یخ بستگی کو ہڈیوں سے کھینچ لیتی ہے
اور یخ بستگی جلتے خوابوں کو
راکھ ہونے سے پہلے ڈھانپ لیتی ہے
اُن پھولوں کی طرح
جو کلراٹھی زمینوں پر
اَمن کی علامت کے طور پر کھلتے ہیں
اور ملتے ہیں اپنی مَہک
اُس جسم کا ذائقہ تشنہ لبوں پر چھوڑ کر
جو کہیں دور بس جاتا ہے
ایسے ویران قصبے میں
جہاں سُرمئی شاموں کی تعظیم میں
محبت کا ڈاک خانہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے
مگر وہاں قسمت کا کوئی دیوتا یا ڈاکیہ نہیں رہتا
٭٭٭٭