آشوبِ دَہر سے نکل کر
ہم ملیں گے ایک خواب میں
شگفتہ چائے کی چسکیوں کے ساتھ
پرلطف باتوں کے کیک رسک کھاتے ہوئے
فرانز کافکا کی حقیقتوں کی پُرسوز داستانوں میں
موجِ سبزہ کی لہلاتی مدھرتا کے سنگ
میں تمہیں سناؤں گا
تمہاری سونے کی بالیوں سے
ارشمیدس نے کھرے اور کھوٹے کی پہچان سمجھی
تمہاری نقرئی گردن کے عرق نے
پانی کی کثافت کا حوالہ پیش کیا
تمہارے کاکلِ پیچاں کی زیبائش سے
سُقراط نے معلمِ اوّل کا خطاب پایا۔۔
میں تمہیں دکھاؤں گا
جون کا وہ حجرہ
جو ستم ایجادی کی آمجگاہ بنا
جسے نگاہِ ناز کے تعاقب میں نگاہِ آشنا بھی دستیاب نہ ہو سکی
میری آنکھوں کے حلقوں پر
سعادت حسن کی عینک لگی ہے
جو نہ مَنٹو ہے نہ ہی مِنٹو
مڑگاں کے کواڑوں سے پرے
کچرے کے ڈھیر سے سگریٹ اٹھاتا ساغر
لوگ کہتے ہیں
اُسے آج بھی خدا یاد نہیں
میں تمہارا تب سے متلاشی ہوں
جب ایجادِ روشنی کے تصور نے
کسی دماغ میں جنم نہیں پایا تھا
میں تمہیں کرَِمک شَب تاب کے سہارے
گرجا گھروں،مندروں , مسجدوں، مزاروں کی راہوں پر
ہر شب کھوجتا رہا
جب تم مجھ سے دور تھی یقیناً بہت دور
آشوبِ دَہر نے
ہمیں کبھی قربت نہیں بخشی
میرے پاس تم سے ملنے اور سنانے کو ایک خواب تھا
ایک دلسوز خواب
جس نے مجھے عمر بھر کے لیے جنسِ رائگِاں بنا دیا
٭٭٭٭