ہمیں جنگل نے دی اچھی، خبر خطرے سے باہر ہیں
بہاریں لوٹ آئی ہیں، شجر خطرے سے باہر ہیں
مری ماں نے کہا ابنِ علی کے غم میں رو بیٹا
انہی کے سر کے صدقے میں یہ سر خطرے سے باہر ہیں
اْسے دیکھا نہیں ہوتا تو بینائی چلی جاتی
خدا کا شکر وہ آیا، نظر خطرے سے باہر ہیں
مری مانو، طبیبِ دل نے ہم سے کُچھ چھپایا ہے
گلے لگ کر وہ کیوں رویا اگر خطرے سے باہر ہیں
مرے پورے قبیلے کی محبت ایک لڑکی ہے
میں کیسے مان لوں ساروں کے گھر خطرے سے باہر ہیں
٭٭٭٭