نکل کر نیند سے آگے ادھورے خواب سے آگے
ذرہ بھر تو کبھی سوچو جفا کے باب سے آگے
ستاروں سے پرے ہے جو جہاں اقبال فرمودہ
تمھارا منتظر ہے پر دلِ بے تاب سے آگے
یہ خواہش کا چکر ویو ہی مزاحم ہے ترقی کا
رضا کا دیپ لا ر کھ دے تو رعب و داب سے آگے
صبر سے مات دینی ہے مشقت سے مٹانا ہے
یقیں کر لے اجالا ہے اسی گرداب سے آگے
میں صادق ہوں اگر مانو بتاؤں میں اٹل نسخہ!
وہ سلطانی کی سر حد ہے ادب آداب سے آگے
٭٭٭٭