تو ڈھیروں لمحے اداس کر جاتی ہوں
جذباتی ہونے پر ضبط کا پیمانہ چھلک جاتاہے
رونے پہ آؤں تو دریا بہادوں !
قہقہے میں سارے غم غلط کردوں !
نیلے پیلے رنگوں کے امتزاج کے جیسے
میرے اندر بھی بہت سے رنگ تحلیل ہیں
مری روح صدیوں پرانی روایات کی حامی ہے
عمر رسیدہ روح اور نرم و نازک دل کیساتھ جینا وبال جاں ہے
مجھے آج کل کی موسیقی عذاب لگتی ہے
جو کسی قوم پر یکلخت اترتا ہے اور اس کو نیست و نابود کر دیتاہے
یہ بھی اس عذاب کی ماڈرن (جدید) شکل ہے
ہر کوئی اس پر فدا ہو رہا ہے
جبکہ پرانوں راگوں کو پس ہشت ڈال رکھا ہے
لیکن مرا من تو نصرت کی قوالیوں میں
سرشار ہونے کو ترجیح دیتا ہے
ایسا میوزک ہی پسندیدہ ہے
جو جذبات کا ہوبہو عکاس ہوا کرتا تھا
اورصوفیانہ کلام تو مری رگ رگ میں پیوست ہے
دینی تقاریر مرے دلی سکون کا باعث ہیں
مجھے میر و غالب کی فکر میں ڈوبی شاعری پسند ہے !
ساحر و ناصر کی غزلیں مری نمائندہ ہیں
پروین شاکر کی نظموں کی پیروی کرتی ہوں
اقبال کے افکار اپنانا فرض سمجھتی ہوں
زین شکیل کو پڑھتی ہوں ، حافی کو سنتی ہوں
ہاں میں ایسا ہی کرتی ہوں !
عشق میں سرشار خوب صورت جدید نظموں کی شیدا ہوں
بیدی کے افسانوں کی تڑپ کو پہچانتی ہوں
منٹو کی بیباکی کی مداح ہوں
اور ایسی بیباکی سے لکھنا مجھے پسند ہے
جو معاشرے کے ناسوروں کو قلم کی تلوار سے ہلاک کردے !
محبت میں توحید پرست ہوں
مجھے جنگلوں تک کے سناٹے سنائی دیتے ہیں
پرندوں کی چہچہاہٹ میں پنہاں سنگیت پردل جھوم اٹھتاہے
شہروں کے شور میں چھپی خاموش صداوں کو
سننے کا ہنر رکھتی ہوں
میں انتہا کی حد تک حساس طبع ہوں
لیکن !
میری حساسیت سرد لہجوں سے ہار بیٹھی ہے
جذباتی شدت ایک آزار معلوم ہوتی ہے
دل خون کے آنسو پی کر رہ جاتا ہے
اور تنک مزاجی عروج پر ہے
خود غرض سماج میں احساس کو زوال کی دیمک چاٹ چکی ہے
مجھے شدید رنج کا سامنا ہے
مگر میں معاشرتی سدھار کے واسطے ، کچھ بھی کرنے سے قاصر ہوں
سماجی حقیقت سے مکمل آشنائی حاصل ہونے پر میں نے یہ طے کیا ہے
کہ میں جو ہوں اور جیسی بھی ہوں
ویسی ہی رہنے کو ترجیح دوں گی
کیونکہ میں فطرتاً ایسی ہی بغاوت پسند لڑکی ہوں
***۔۔۔۔***