ترے کوچے کی جنت کو بھلانا کفرِ ایماں ہے
ترے جلوے کی حدت سے رواں میری رگِ جاں ہے
ترے بسمل کو بہلانے ہے آیا حور و غلماں سے
ارے مجنوں ہے افلاکی حقیقت میں یا رضواں ہے؟
ہاں مل جائے اگر فرصت ترے کوچے سے ہو آئے
تو پھر پوچھوں گا ناداں سے دریدہ کیوں گریباں ہے؟
لو تن آسان قدسی پہ یہی عقدہ نہیں کھلتا
یہ جو شمعِ محبت ہے میرے خون سے فروزاں ہے
ترے جاوید جذبوں کی قدر ہو گئی کبھی جا کر
ابھی تو قدرے گلشن میں کمی ارباب رنداں ہے
٭٭٭٭