کوئی خار یا کوئی پھول ہے وہ قبول ہے
مرے یار کو جو قبول ہے وہ قبول ہے
تجھے چھوڑ کے مجھے رنگ و بُو نہیں چاہیے
ترے راستے کی جو دھول ہے وہ قبول ہے
وہ کہ جس کا عشق علی سے نئیں کہیں دور ہو
جو غلامِ اٰلِ بتول ہے وہ قبول ہے
کوئی خارزار کہ سنگ بار ہو کوئی نئیں
کوئی رہ جو راہِ حصول ہے وہ قبول ہے
اسی اس پہ ترے نام صفدر ’’غزل‘‘ کہی
کہ تو کہہ دے ہاں ’’وہ قبول ہے وہ قبول ہے‘‘