یہ قافیہ ہے آج تو کل کی ردیف ہے
ہر زندگی کے ساتھ اجل کی ردیف ہے
کالی گھٹا سی زلف یہ آنکھوں میں مستیاں
لگتا ہے میر کی تُو غزل کی ردیف ہے
جس چیز کی ہے ابتدا ہے انتہا ضرور
یعنی کہ یہ ابد بھی ازل کی ردیف ہے
تقدیر میری الجھی الجھتی چلی گئی
لگتا ہے اس کی زلف کے بل کی ردیف ہے
شاعر میں ایک پل کا ہوں دو پل مری غزل
ہے پل کا قافیہ مرا پل کی ردیف ہے
نیکی کو سوچنا نہیں کرنا بھی ہے ضرور
نیت ہے قافیہ تو عمل کی ردیف ہے
تُو نے پڑھا تو ایسا لگا تیرا شعر ہے
ایسا لگا کہ میری نقل کی ردیف ہے
٭٭٭٭