نیند کیوں مجھ پہ اب یہ طاری ہے
آج سر کیوں مرا یہ بھاری ہے
مجھ سے کیا ہو گئی خطا یا رب
کیوں مرے در پے دنیا ساری ہے
ایک لمحہ ملا تھا خوشیوں کا
اشک باری ہنوز جاری ہے
ہیں یہاں دوست بھی بڑے دشمن
یا تو خود غرضیوں کی یاری ہے
آج ہوں آمنہ بہت ہی خوش
آج سر سے بلا اتاری ہے
تمہیں ہم کبھی جو خفا دیکھتے ہیں
تو سینے سے دل کو گیا دیکھتے ہیں
اگرچہ تعلق نہیں کچھ بھی تم سے
تو کیوں تم کو دل میں بسا دیکھتے ہیں
دیا جو محبت کا تو نے جلایا
دیا اب وہ اکثر بجھا دیکھتے ہیں
مجھے گر نظر تم نہ آؤ کبھی تو
تو پھر خود سے خود کو جدا دیکھتے ہیں
مری زندگی میں اگر تم نہیں ہو
تو ہم ہر بقا کو فنا دیکھتے ہیں
محبت ہے یا ہے نظر کا یہ دھوکہ
ترا عکس ہی ہر جگہ دیکھتے ہیں
سویرا جو محروم ہو روشنی سے
تو قسمت پہ غم کی گھٹا دیکھتے ہیں
٭٭٭٭